مرحوم ڈاکٹر الیاس وسیم صدیقی صاحب کو ہم سے جدا ہوئے چار سال کا عرصہ بیت گیا ـ مرحوم کی خدمات پر لکھا ہوا ایک مضمون جو ماہنامہ اردو دنیا نئی دہلی میں شائع ہوا تھا ـ ڈاکٹر الیاس صدیقی ایک ہمہ گیر شخصیت۔۔۔ ڈاکٹر مبین نذیر
Author -
personحاجی شاھد انجم
نومبر 02, 2025
0
share
ڈاکٹرالیاس وسیم صدیقی کا آبائی وطن ٹانڈہ اترپردیش تھا ۔ جہاں سے ان کے آبا و اجداد نے نقل مکانی کرکے مالیگاؤں میں مستقل سکونت اختیار کی۔ شہر مالیگاؤں میں یکم مارچ 1945 کو محمد حنیف اور زہرہ صدیقی کے یہاں ایک بچے کی ولادت ہوئی ، جس کا نام محمد الیاس تجویز کیا گیا۔
یہی بچہ ادب کے افق پر ڈاکٹرالیاس وسیم صدیقی بن کر نصف صدی سے زائد عرصے تک روشن رہا اور اپنی ضیا پاشیوں اور ضیا باریوں سے ایک جہاں کو منور کرتا رہا۔
وہ آفتاب علم و فن جو معلم تھا، محقق تھا، ناقد تھا ، مبصر تھا،مقرر تھا، افسانہ نگار اور شاعر بھی تھا۔ اردو ،عربی اور فارسی میں کامل دسترس رکھتا تھا۔ ایک ایسا قانون داں تھا جو ادب کی باریکیوں ، نزاکتوں اور لطافتوں سے نہ صرف واقف تھا بلکہ ان کا مبلغ اور مدرس بھی تھا۔
عروض کا ماہر اور شاستریہ سنگیت کا مزاج داں ۔ جس کا واضح اظہار کتاب " قندیل حرف" کے صفحات پر دیکھا جاسکتا ہے ، جس میں انھوں نے نہ صرف اردو اور ہندی زبانوں میں لکھا ہے بلکہ ان کے میوزیکل نوٹیشن کو بھی درج کیا ہے۔
جو ماہر موسیقی رمضان فیمس کے لکھے ہوئے ہیں۔ یہ نوٹیشن پنڈت بھات کھنڈے کے طریقے پر لکھے گئے ہیں۔ ( قندیل حرف ۔ ص 71۔ ڈاکٹرالیاس صدیقی۔ 2013) ڈاکٹر موصوف نے لوریاں بھی قلم بند کی ہیں۔ اور ان کی دھنیں بنواکر " آجارے نندیا" کے نام سے ایک البم بھی ریلیز کیا ہے۔
یہ لوریاں بھی مذکورہ بالا کتاب میں شامل ہیں۔ آجارے نندیا کو مغنیہ " جیوتسا راجوریہ " نے آواز اور شیو راجوریہ نے میوزک سے آراستہ کیا ہے۔ ان لوریوں کا نوٹیشن بھی" قندیل حرف " میں دیکھا جاسکتا ہے۔ بحیثیت شاعر انھوں نے حمد، نعت، نظمیں ، غزلیں، منقبت، سہرے ، رخصتی، استقبالیہ و الوداعی گیت، تہنیت نامے، اور اسکولی ترانے سپرد قلم کیے ہیں تو افسانے بھی لکھے ہیں ۔ جہاں انھوں نے ساتھی اساتذہ کی سبکدوشی کے موقع پر الوداعی گیت لکھے ہیں وہیں اپنی سبکدوشی پر بھی " ہم تو چلے یاران محفل " کے عنوان سے ایک نظم سپرد خامہ کی ہے۔
کہتے ہیں، ہم تو چلے یاران محفل ! سارے کام تمام ہوئے جیسے کوئی پرندہ اپنے گھر لوٹے شام ہوئے موصوف نے اسکولوں کے ساتھ ہی مدارس کے لیے بھی اپنی بیش بہا خدمات پیش کی ہیں۔ شہر عزیز مالیگاؤں کی معروف دینی درس گاہ معہد ملت کا ترانہ آپ ہی کی کاوش قلم کا ثمرہ ہے۔ لکھتے ہیں، علوم دیں کا بحر بے کراں ہے معہد ملت شریعت کے چمن کا پاسباں ہے معہد ملت ہم ایک تھے ، ہم ایک ہیں ، ترانے کا اولین بند ملاحظہ فرمائیں، پھر حق و صداقت کا علم لے کے اٹھیں گے بے خواب سی آنکھوں میں نئے خواب بنیں گے مٹی کی محبت میں ہر الزام سہیں گے دھرتی پہ لہو سے نئی تحریر لکھیں گے ہر وادی پرخار کو گلزار کریں گے ہم ایک تھے ہم ایک ہیں ہم ایک رہیں گے غزلوں میں بھی جناب وسیم کا رنگ انفرادیت کا حامل ہے۔ عصری حسیت ، روایتی موضوعات ، حسن و عشق کے قصے ۔ لیکن جب یہی صدیقی صاحب کے قلم سے نکلتے ہیں تو ان میں ایسا نور جلوہ فگن ہوتا ہے جو ہر ایک کی توجہ اپنی جانب مبذول کرالیتا ہے۔ ملاحظہ ہوا، خون بہاتا نہیں ہم جنسوں کا کوئی حیواں کام یہ وہ ہے جسے صرف بشر کرتے ہیں مضمون پرانا ہے لیکن برتنے کے انداز نے اسے منفرد بنادیا ہے ۔ ایک اور شعر دیکھیے ، یہ فیصلہ بھی نہ کرسکی تاریخ ہنوز کتنا ذلیل کرتی ہیں انساں کو کرسیاں اردو زبان کی زبوں حالی ، اپنوں کی بے اعتنائی ، غیروں کی بے وفائی پر بے شمار اشعار کہے گئے ہیں لیکن اس شعر میں یقینا کچھ خاص ہے ، کون سو سو بار ہوکر قتل بھی زندہ ہے آج بار خاطر گر نہ ہو اردو زباں کہہ لیجیے قندیل حرف کا ہر صفحہ ایسے ہی اشعار سے روشن ہے۔ طنز و ظرافت کے میدان میں صدیقی صاحب کا طوطی کچھ یوں بولتا تھا کہ ان کی غیر موجودگی میں زندہ دلان مالیگاؤں نے ان کو اپنی انجمن کا صدر منتخب کیا تھا ۔ اس بزم نے صدیقی صاحب کی رہنمائی میں ترقی کے مدارج طے کیے۔ ان کے مضامین ماہنامہ " شگوفہ" میں تواتر سے شائع ہوتے رہے ۔ طنزیہ و مزاحیہ مضامین کا مجموعہ" ظرافت آمیز 2015" میں منصہ شہود پر آیا۔شہری مسائل پر لکھے ہوئے مضامین جو ایک روزنامہ "شامنامہ" میں " جاگ مرے شہر " کے عنوان سے شائع ہوتے تھے ، کتابی شکل میں اسی عنوان سے شائع ہوئے ۔ مشتے از خروارے کے مصداق ذیل اقتباسات سے ان کی حس مزاح ، مزاح نوازی اور مزاح شناسی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے ۔اسی طرح "جاگ مرے شہر“ا ن کی زعفران زار تحریروں کا مرقع ہے جو زندگی کے بوجھل لمحوں میں ٹانک کا کام کرتی ہیں۔ ساتھ ہی اصلاح معاشرہ کا فرض بھی بخوبی پورا کرتی ہیں۔ اس کتاب میں یوں تو شہر مالیگاؤں کے مسلم معاشرے کی سماجی اور معاشرتی برائیوں کی نشان دہی کی گئی ہے لیکن اس میں برصغیر کے مسلم معاشرے کی مکمل تصویر نظر آتی ہے۔ اس کتاب کے متعلق مشہور افسانہ نگار سلطان سبحانی کی رائے یہ ہے ، " مالیگاؤں کے مشہور اخبار شامنامہ میں انھوں نے اپنے مخصوص عنوان "جاگ مرے شہر" کے ذریعے مالیگاؤں کی سیاسی ، سماجی ، معاشرتی ، ادبی، تہذیبی، مذہبی اور تعلیمی سرگرمیوں کے گرد خط حصار کھینچ کر شہر کے ان تمام مسائل کا جائزہ بھی لیا ہے اور رہنمائی بھی کی ہے۔" (دامن شب زندہ دار ۔سلطان سبحانی۔ مشمولہ مالیگاؤں میں اردو نثر نگاری ۔ ص 30 ) ڈاکٹر الیاس صدیقی کی طنز و ظرافت آمیز تحریروں کے تعلق سے مجتبی حسین کی رائے ہے ، ” میں بھی آپ کی تحریروں کا بہت عرصے سے مداح ہوں۔ آپ کے مضامین شگوفہ میں پڑھتا رہا ہوں۔ آ پ کی تحریر میں وہ شگفتگی بدرجی اتم موجود ہے جو مزاحیہ ادب کی جان ہے۔ " ( پس و پیش لفظ ۔ مجتبی حسین۔مشمولہ ظرافت آمیز ۔ ڈاکٹر الیاس صدیقی۔ ص 10 ) ظرافت آمیز کا پہلا مضمون " گالی" ہے جس کی ابتدا کچھ یوں ہوتی ہے ، " گالی ہماری زبان کا ایک خوبصورت لفظ ہے۔ اس کی فصاحت اور سلاست اظہر من الشمس ہے اور سب سے اہم بات یہ کہ یہ لفظ اپنے معنی کی سیدھی ترسیل کرتا ہے۔ اس لیے ترسیل کا کوئی المیہ بھی پیدا نہیں ہوتا۔" ( ظرافت آمیز ۔ ڈاکٹر الیاس صدیقی۔2015۔ ص 17 ) اسی طرح مضمون " میاں مٹھو" جسے ہم ہجویہ خاکہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے ۔نثر میں ہجو لکھ کر ڈاکٹر صاحب نے جودت طبع کا ثبوت دیا ہے۔ جس کا ایک اقتباس قارئین کے لیے نقل کیا جاتا ہے۔ "موصوف کا قد سرو کی طرح بلند ہے ۔ بدن ایسا دبلا پتلا کہ محبوب کی کمر کو رشک آئے ۔ گردن بالکل صراحی کی طرح۔ غرض ان کے جسم کے ہر عضو سے شان محبوبیت جھلکتی ہے ۔ ان کو دیکھ کر دو ہی جانوروں کا تصور ذہن میں آتا ہے ۔ اگر گردن کے اوپر کے اعضا کو بغوردیکھا جائے تو طوطا اور اگر پورے جسم کو گردن فرض کیا جائے تو اونٹ۔ چونکہ اونٹ کی نسبت سے اہل ذوق کو کوئی مناسب نام نہیں سوجھا ، اس لیے ان کا نام "میاں مٹھو" طے کردیا ۔ ( ظرافت آمیز ۔ ڈاکٹر الیاس صدیقی۔ 2015۔ص 23) طنز و مزاح کے بعد جب ہم صدیقی صاحب کی سنجیدہ تحریروں کا رخ کرتے ہیں تو ہماری نگاہ سفر نامہ حج " رب اغفر وارحم " پر ٹھہر جاتی ہے ۔
جس میں انہوں نے سفر حج کی تیاریوں ، اثرات، محرکات اور پیغامات کا ذکر اپنے مخصوص انداز میں کیا ہے۔ احرام سفر حج کا ایک لازمی جز ہے ۔ اس کو ایسے دیکھتے ہیں ، " سفید رنگ کے دو بظاہر معمولی کپڑوں کے ٹکڑوں نے احساس و عمل میں کیسا انقلاب برپا کردیا ہے ۔ بالکل یوں معلوم ہوتا ہے کہ جہان رنگ و بو اور بیت اللہ کے درمیان احرام کا کپڑا ( یا احرام یا جذبہ) دیوار بن کر حائل ہوچکا ہے ۔ (رب اغفر وارحم ۔ ڈاکٹر الیاس صدیقی ۔2001۔ ص 19) حجر اسود کے بوسوں کا ذکر ان الفا ظ و احساسات کے ساتھ کرتے ہیں، " ہمارے لبوں پر حجر اسود کے بوسوں کا نور اور آپ ؐ کی سنت کی ادائیگی کا ایسا سرور طاری ہوا کہ اس کی یاد اب بھی تازہ ہے۔ ۔ (رب اغفر وارحم ۔ ڈاکٹر الیاس صدیقی ۔2001۔ ص 22) اس مقدس سفر کے دوران انھوں نے اجتماعیت ، اتحاد و یک جہتی کا مظاہرہ مسلمانوں کے اندر دیکھا کہ لسانی ، علاقائی ، تہذیبی ، ثقافتی ، مسلکی اور فقہی اختلافات کے باوجود سب ایک ساتھ" ایک "کی عبادت میں مستغرق ہیں۔ اسی " ایک " سے لو لگائے ہوئے ہیں ، تو بے ساختہ ان کے دل نے اسی " ایک" سے دعا کی کہ اپنے محبوب کی امت کو ان کے اپنے وطنوں میں بھی اسی طرح " ایک" کردے۔ سفر حجاز کے بیان میں بھی صدیقی صاحب اپنی فطری ظرافت کا اظہار کرنے سے نہیں چوکتے ۔ ترکی حاجیوں کے ذکر کے باب میں کہتے ہیں ، " طواف کرتے ہوئے یہ اپنا راستہ کہنیوں کی مدد سے بناتے ہیں۔یہ خود آگے چلتے ہیں اور ان کی دونوں کہنیاں دائیں بائیں چلتی ہیں۔ حاجیوں کو ان کی کہنیوں سے بچ کر رہنا چاہیے ۔ ایک پڑ گئی تو کئی دن پسلیوں کی مالش کرنا پڑسکتی ہے۔" (رب اغفر وارحم ۔ ڈاکٹر الیاس صدیقی ۔ 2001۔ ص 27) پڑھتے جائیے ، عقیدت، حیرت اور محبت کے سمندر میں غرق ہوتے جائیے ۔ بعض مقامات تو ایسے ہیں کہ بے ساختہ آنکھوں سے اشکوں کا سیل رواں جاری ہوجاتا ہے۔ ادیب اور شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر صاحب ایک قانون داں بھی ہیں۔ اس کا ثبوت ان کی کتاب " این آر سی گائیڈ یعنی شہریت کیسے ثابت کریں؟ ہے ۔ یہ ان کی حیات میں شائع ہونے والی آخری کتاب ہے۔ جس میں انھوں نے نہایت سادہ اور آسان انداز میں این آر سی کی تیاری کو بیان کیا ہے۔ اس کامطالعہ کرنے کے بعد قاری میں ڈر اور خوف کی نجائے خود اعتمادی اور حوصلہ مندی پیدا ہوتی ہے۔ 50 سے 60 صفحات میں انھوں نے دستور ہند کی مختلف دفعات سے حوالے سے جو مدلل گفتگو کی ہے ، وہ مطالعہ کی متقاضی ہے۔ تخلیق کے ساتھ ساتھ میدان تحقیق میں بھی ان کی خدمات قابل رشک ہیں۔ " مالیگاؤں میں اردو نثر نگاری " ان کا تحقیقی مقالہ ہے ۔ جس پر ساوتری بائی پھلے پونے یونیورسٹی (پونے یونیورسٹی )نے انھیں ڈاکٹریٹ سے نوازا۔ اس میں شہر مالیگاؤں کی دیڑھ سو سالہ ادبی تاریخ کا احاطہ جس شرح و بسط سے کیا گیا ہے ، اس کی نظیر نہیں ملتی ۔ شہر مالیگاؤں کی ادبی تاریخ میں یہ مقالہ سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس کو معروف افسانہ نگار سلطان سبحانی ایک ایسا کارنامہ قرار دیتے ہیں جو ایک تاریخ کی شکل میں ہمیشہ روشن رہے گا۔ ان کی سیماب صفت طبیعت انھیں بے قرار رکھتی تھی ۔ عمر کے آخری پڑاؤ پر بغیر کسی مالی منفعت کے ، صرف اردو زبان و ادب اور تنقید و تحقیق سے الفت اور اپنے شہر کی محبت نے انھیں پی ایچ ڈی کرنے پر آمادہ کیا ۔ انھیں ڈاکٹر اشفاق انجم جیسا گائیڈ میسر آیا۔ جن کا ادبی قد کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ڈاکٹر الیاس صدیقی سے پہلے اور بعد میں ان کو ایسا نکتہ رس اور نکتہ سنج بزرگ ریسرچ اسکالر نہیں مل سکا۔ مالیگاؤں کی سیاسی اور سماجی تاریخ 2005 میں منظر عام پر آئی ۔ جیسا کہ اس کے نام سے ظاہر ہے ، اس میں شہر عزیز کی سیاسی اور سماجی تاریخ پر مفصل روشنی ڈالی گئی ہے ۔ اس کتاب کا مراٹھی ترجمہ بھی بہت مقبول ہوا۔ جس کے مترجم محمود شیخ ہیں۔ 2018 میں حکومت مہاراشٹر نے اس کتاب کے مراٹھی ترجمہ " مالیگاؤں چا اتہاس " کو اعزاز کے لیے منتخب کیا تھا۔ تنقید و تبصرہ کے میدان میں بھی ڈاکٹر الیاس صدیقی قائد و سالار تھے ۔افسانوی ادب ہو یا غیر افسانوی ادب ،دونوں پر آپ کو دسترس حاصل تھی۔ آپ کے ہم عصر بلکہ سینئر، جونئیر اور نو آموز ادبا و شعرا آپ سے پیش لفظ، مقدمہ اور تقریظ وغیرہ لکھوایا کرتے تھے۔ اس نوع کے مضامین کو ترتیب دے کر آپ نے ایک کتاب بعنوان " ادبی تبصرات و تعارف " کے نام سے شائع کی ہے۔ یہ کتاب آپ کی تنقیدی بصیرت اور تبصراتی و تجزیاتی صلاحیتوں کی شاہد ہے۔ معروف ناظم مشاعرہ اثر صدیقی ، جمیل احمد جمیل، رمضان فیمس، اور ہارون اختر وغیرہ کی کتابوں میں آپ کے تبصرے اور مضامین شامل ہیں۔ ماہنامہ اخبار گلشن روزگار جو ان کے فرزند اعجاز صدیقی کی ادارت میں شائع ہوتا ہے ، اس میں اداریہ نویسی کا فریضہ بھی آپ بحسن خوبی انجام دیتے تھے۔ یکم نومبر 2021 کے آپ کے اداریے کا عنوان تھا " زبان سنبھال کے صاحب"۔ شہر میں ہونے والی مختلف ادبی تقاریب میں پابندی سے شریک ہونا ، برمحل اور بے لاگ تبصرے کرنا آپ کا خاصہ تھا۔
شہر مالیگاؤں میں 2021 میں ہونے والے قومی کونسل برائے فروغ اردو زبان نئی دہلی کے تاریخ ساز میلے کی اولین میٹنگ کی صدارت آپ ہی نے کی مگر افسوس کہ میلے کے انعقاد سے قبل ہی مورخہ 2 نومبر 2021کو آپ اپنے مالک حقیقی سے جاملے۔ آپ کی مطبوعہ کتب کے علاوہ غیر مطبوعہ کلام اور مضامین بھی وافر مقدار میں موجود ہیں جو اشاعت کے منتظر ہیں ۔ اہلیان مالیگاؤں اور ان کے اہل خانہ کی ذمہ داری ہے کہ ڈا کٹر صاحب کی غیر مطبوعہ تخلیقات کو ادبی دنیا کے سامنے پیش کریں ۔ یہی ان کو سچا خراج عقیدت ہوگا۔