مفتی شکیل ظفر قاسمی صاحب رحمت اللہ علیہ
از:۔مولانا امتیاز اقبال
مدیر ہفت روزہ اخبار نوید شمس
لوگ اچھے ہیں بہت دل میں اتر جاتے ہیں
ایک برائی ہے تو بس یہ کہ مرجاتے ہیں
ایک غریب،محنت کش،اور پسماندہ خاندان سے تعلق رکھنے والا، ہیرے کے مانند بیش قیمت،صلاحیت مند شخص،جو کبھی ہمارے درمیان رہتا تھا لیکن اب صرف دلوں میں بستا ہے۔۔۔ان کا نام نامی ،
شکیل احمد ظفر ابن مسرت اللہ ہے
،جنھیں دنیا والے "مفتی شکیل احمد قاسمی صاحب"کے نام سے جانتے ہیں،اور آج بھی آپ کے کارہائے نمایاں کی وجہ سے یاد کرتے ہیں-
مفتی شکیل احمد قاسمی صاحب مرحوم کی پیدائش برھانپور سے ہجرت کرکے آنے والے،اولیاء اللہ کی طرف خاندانی طورپرمنسوپ ایک فرد مسرت اللہ المعروف بہ"مسرت اللہ بانگی"کے گھر سنہ ١٩٧٧ میں پیدا ہوئے،آپ کا اصل نام"شکیل احمد"اور خاندانی نام"ظفر"تھا،آپ کے آباء و اجداد کا تعلق،دارالسرور و مقام اولیاء" شہر برھانپور "سے تھا،آپ کی نسبت مشائخ کے اس خاندان سے تھی،جس خاندان سے شاہ عبدالغفور رح کا تعلق تھا،یہی وجہ ہے کہ آپ کے نام کے ساتھ"ظفر"کا لاحقہ مستعمل ہے،اس وقت کے دستور کے مطابق جب ٦سال کی عمر ہوئی تو آپ کو اسکول نمبر ٢٠ میں داخل کیا گیا،آپ کے والد مرحوم تکیہ مسجد قلعہ میں مؤذن تھے اور خاندانی اثرات کیبناء پر علماء ومشائخ کے گرویدہ اور دیندار طبیعت کے مالک تھے،شاید اسی وجہ سے محض تین سال ہی اسکول میں گذار سکے،حالانکہ آپ بلا کے ذہین و فطین تھے،لیکن اللہ تعالیٰ کی عالم الغیب ذات نے کچھ اور مقصد کے لئے پیدا کیا تھا،٢١جون ١٩٨٦کوآپ شھر کے معروف اور اعلے دینی تعلیم کے جدید ادارے"دارالعلوم محمدیہ قدوائی روڈ"میں داخل کیےگئے،اس ادارے میں رہ کر آپ نے دینیات،تجویداور عالمیت کی تکمیل فرمائی،
اس دوران مفتی صاحب مرحوم نے جید علماء کرام سے تحصیل علوم کی سعادت حاصل کی،ان اساتذہ کرام میں قابل ذکر"مفتی محمد اسماعیل قاسمی صاحب،مفتی عبدالمالک قاسمی صاحب،مولانا یاسین ذوق اختر قاسمی صاحب،مولانا عبدالفتاح قاسمی صاحب, مولانا انیس الرحمن قاسمی صاحب،مولانا شکیل احمد قاسمی صاحب زید مجدہم و مکارمھم ہیں-
٣جنوری ١٩٩٦ کو مفتی صاحب مرحوم نے دارالعلوم محمدیہ قدوائی روڈ مالیگاؤں سے سند فراغت حاصل کی،اعلی تعلیم کے حصول اور دارالعلوم دیوبند سے علمی و روحانی انتساب نیز افتاء کی تعلیم کے لئے ازہر ہند دارالعلوم دیوبند تشریف لے گئے،خوبی قسمت سے آپ کاداخلہ ضابطے کے مطابق دارالعلوم دیوبند (وقف)کی جماعت دورہ حدیث شریف میں ہوا،فطری طور پر مفتی صاحب مرحوم کو اساتذہ واکابر علماء ومشائخ سے قلبی لگاؤ اور تعلق تھا, دارالعلوم دیوبند (وقف) میں آپ کو دنیا کے مشاہیر واکابر علماء ومشائخ سے شرف تلمذ میسر ہوا،محدث عصر مولانا سید انظر شاہ رح ابن مولانا سید انور شاہ رح،خطیب الاسلام مولانا محمد سالم صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ،مولانا اسلام صاحب دیوبندی،اور افتاء میں حضرت مولانا مفتی احمد علی سعید صاحب مرحوم ان میں خصوصیت سے قابل ذکر ہیں-
آپ نے جناب قاری عبد الصمد فیضی صاحب مرحوم کو مکمل قرآن کریم بالتجوید سنایا،راقم کو سب سے پہلے مفتی صاحب مرحوم کی رفاقت قاری صاحب مرحوم کے یہاں ہی حاصل ہوئی-
١٩٩٨کے اواخر میں آپ کو اپنے مادر علمی میں تدریسی خدمات انجام دینے کا شرف حاصل ہوا،دینیات کی جماعتوں سے سلسلہ تدریس شروع فرمایا،بتدریج ترقی کرتے ہوئے مسلم شریف تک پہنچے اور استاذ حدیث ہونے کا اعزاز حاصل کیا،اپنی خوش خلقی،ملنساری،دردمندی،جذبہ خدمت کی وجہ سے طلبہ و اساتذہ اور ذمہ داران مدرسہ کے نزدیک محبوب و مقبول رہے،ذمہ داران مدرسہ نے انکے مشوروں پر عمل پیرا رہتے ہوئے انکی ذات سے استفادہ کیا،انکی قدردانی کی اور خدمات کو فراموش نہیں کیا،مدرسے میں بظاہر کسی عہدے پر نہیں تھے ،لیکن نمایاں اور تاریخی خدمات انجام دیں،مطبخ کے نظام کی عمدگی،طلبہ کی ضروریات کی طرف اہل خیر کو متوجہ کرنا،اساتذہ کرام کے درمیان ہم آہنگی قائم کرنا،کتابوں کا نظم،دفتر اور امتحانات کے کام کاج میں جدت،رنگ وروغن اور ضروری تعمیرات،طلبہ کے مسائل کا حل،حفظ میں اضافی داخلے کی حکمت عملی،یہ تمام کام مرحوم کے ہاتھوں انجام پذیر ہوئے،مفتی محمد اسماعیل قاسمی صاحب کی مصروفیات کے باعث دارالافتاء کا کام بھی سنبھالا،اس طرح اس شعبے میں بھی اپنی بساط بھر کوششں کی-
جمعیت علماء ہند سے کمسنی کے زمانے میں وابستہ ہوئے،اپنی فعال کارکردگی،شوق خدمت،اور درد ملت کی بدولت ایک کارکن سے لیکر سکریٹری کے عہدے تک پہنچے،٢٠١٣میں مسلم فنڈ کا معاملہ اجاگر ہونے کے بعد آنا فانا جنرل سکریٹری بنائے گئے،اس مرحلے میں آپ کی نگرانی میں ممبر سازی اور انتخابات،جمعیت کے دستور مطابق بڑی خوش اسلوبی سے مکمل ہوئے،آپ کے ذریعے سینکڑوں نوجوان جمعیت علماء اور اس کے کاز کی طرف متوجہ ہوئے-
٢٠٠٦بم دھماکے کے حادثے کے بعد تشکیل دی جائے والی"کل جماعتی تنظیم" میں فعالیت کے ساتھ خصوصی دلچسپی لی اور بڑھ چڑھ کر حصہ لیا،برسوں لشکر والی عیدگاہ کے نظم میں حصہ لیا،اور عید گاہ کے منبر سے خطاب بھی کیا-
دارالعلوم دیوبند (وقف)سے فراغت کے معا بعدسے٢٠٠١کے اخیر تک " مسجد نگینہ"اسلام آباد میں منصب امامت وخطابت پر فائز رہے،اور اپنی طبیعت و مزاج کے عین مطابق فرائض امامت سے آگے بڑھ کر قربانیاں پیش کیں،مسجد نگینہ کے ذمہ داران کے ساتھ مل کر "ادارہ تجوید القرآن" کے ماتحت مکتب جاری کیا،دوران امامت دعوتِ وتبلیغ کے سلسلے میں پہلے چار مہینے پھر چالیس دن لگائے،محلے کے نوجوانوں کو دینی خطوط پر استوار کرنے کی سعی بلیغ فرمائی،ان نوجوانوں کو ساتھ لیکر اجتماعی اعتکاف کیا،نوجوانوں کی جسمانی تربیت کے لیے کراٹے کلاس کا اہتمام کیا،یہ کلاس اب بھی جاری و ساری ہے،جمعیت علماء کے تقاضوں پر ہمہ وقت تیار رہنے کا مزاج بنایا،چار سال کے دوران متعدد خاندانوں کے عائلی مسائل حل کیے،اہلیان محلہ کے ساتھ ہمیشہ ہمدردی اور موانست سے کام لیا،مسجد نگینہ کی خدمت کے دوران ایسے انمٹ نقوش اور یادیں چھوڑی ہیں جنہیں آپ کی وفات کے بعد بھی بھلایا نہ جاسکا ہے،مسجدنگینہ کے بعد٢٠٠٧میں اللہ تعالٰی نے آپ سے مسجد مکرم (سلیم منشی نگر) میں اسی شان و ادا سے امامت وخطابت کی خاص توفیق عطا فرمائی،اور تاحیات اسی طریق پر گامزن رہے،مسجد مکرم کی تعمیر جدید میں خاطر خواہ حصہ لیا-
مرحوم مفتی صاحب کی شخصیت عطاء خداوندی کی بین دلیل تھی، آپ ایک طرف مخلص ودرد مند سماجی خدمت گار تھے تو دوسری طرف بےلوث کام کرنے والے سیاسی لیڈر تھے،اپنی دبنگ سیاسی کارکردگی کی بناء پر" تیسرا محاذ "کی جانب سے کوآپ کاربوریٹر رہے،آپ کی زندگی کا بیشتر حصہ تنگدستی اور عسرت میں گذرا،لیکن آپ نے اپنے ظاہری رکھ کھاؤ سے اس حقیقت کو چھپارکھاتھا،راقم کا تاثر ہے کہ سماجی و معاشرتی اور دینی اداروں کے مالی مسائل کے حل کے لیے،مرحوم کو شھر کے چھوٹے بڑے شخص سے بات کرنے میں کوئی باک نہ تھا،جرات وہمت کا پیکر تھے،جہاں اچھے اچھوں کے پسینے چھوٹ جاتے وہاں مفتی صاحب مرحوم آگے بڑھ کر حالاتِ کو سنبھال لیا کرتے،غیرت و حمیت اسلامی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی ،لیکن بےجا جوش سے نہ دکھاتےہوئے حکمت ودانائی سے کام لیتے،ادھر کوئی ١٥/١٦سال سے ہونے والی ہر دینی و علمی مجالس میں مفتی صاحب مرحوم کی شرکت لازمی سمجھی جاتی ،ایک خاص ادا یہ تھی کہ اگر کہیں خصوصی طور پر مدعو نہ بھی ہوتے تو بلاتکلف پہنچ جاتے،جس مجلس میں ہوتے میر مجلس قرار پاتے،بڑوں کی تکریم اور چھوٹوں کی حوصلہ افزائی عادت ثانیہ تھی، بلا کسی تفریق کے دینی و ملی اداروں کے لیے اپنے آپ کو تج دیا تھا،جآمعہ تجوید القرآن مالدہ کے قطعہ اراضی کے حصول کی قابل قدر کوششیں کیں،بہائیت کے خلاف سینۂ سپر ہوئے،قادیانیت کا بے جگری سے مقابلہ کیا،امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کانفرنس کے لیے کامیاب مساعی کیں،ادارہ خزیمہ ابن ثابت رضی اللہ عنہ کے زیراہتمام منعقدہ مسابقات تفسیر کی سربراہی فرمائی،درس قرآن کمیٹی،اصلاحی کمیٹی موتی پورہ میں حضرت مولانا محمد ادریس عقیل صاحب مدظلہ کے زیر سرپرستی شامل رہے،تنظیم اہل سنت والجماعت کے ممبر رہے،مجلس علماء وائمہ مساجد کے بانیوں میں رہ کرکئی صدقات جاریہ اپنے نام کیے،
اتنی ساری مصروفیات کے باوجود آپ نے بیعت وسلوک اور اپنی اصلاح وتربیت سے پہلو تہی اختیار نہیں فرمائی،،اورحضرت مولانا ابراہیم صاحب پانڈور دامت برکاتہم (جانشین فقیہ الامت رح وخلیفہ و مجاز حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کاندھلوی رح)سے بیعتِ ہوئے،اخیر زندگی تک طریق پر کاربند رہے،کئی مرتبہ راقم الحروف کے ذریعے مکاتبت فرمائی-
انتقال سے دوسال قبل آپ کو رخسار کے اندرونی حصے میں زخم ہوا،جو آگے چل کر مہلک ثابت ہوا،مرض کی تکلیف اور شدت کو پوری جوانمردی سے برداشت کرتے رہے،معمولی افاقہ ہونے پر چاق و چوبند اپنے کاموں میں مشغول ہوجاتے،قوت برداشت کا یہ حال تھا کہ مہلک مرض کا علم مخلص احباب کے علاوہ گھروالوں کو بھی نہ ہونے دیا-
بالآخر ٢٧جمادالاولی ١٣٣٧ھ مطابق ٧مارچ ٢٠١٦بروز جمعرات کی وہ المناک گھڑی تھی،جس میں آپ کا وقت موعود آگیا،محض ٣٣سال کی عمر میں بیوہ والدہ،اہل خانہ اور سینکڑوں شاگردوں و محبین کو غمزدہ چھوڑ کر راہی ملک عدم ہوئے-
کسی کہنے والے نے کہا ہے۔۔۔
کہانی ختم ہوئی اور ایسی ختم ہوئی
لوگ رونے لگے تالیاں بجاتے ہوئے
احمد فراز نے کہا ۔۔۔
میں صحرائے محبت کا مسافر تھا فراز
ایک جھونکا تھا کہ خوشبو کے سفر پر نکلا
راقم الحروف کے دل کا حال یہ ہے کہ۔۔۔
لاؤں کیسے تجھے اب بزم میں اے دوست!!
بہت مدت ہوئی چھوڑے کوئے بتاں تجھ کو
بہت ہی زیادہ قابلِ قدربات ہے کہ مجلس ابناء قدیم مدرسہ اسلامیہ بڑا قبرستان،کے صدر مولانا سفیان جمالی صاحبواراکین نے آئندہ ماہ ہونے والےمسابقہ اذان و پارہ عم کی پہلی فرع کو صدیق حمیم مولانا مفتی شکیل احمد ظفر قاسمی صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ کی جانب منسوب کیا ہے۔۔۔۔فجزاہم اللہ احسن الجزاء
مولانا محمد سلیمان شمسی رحمۃ اللہ علیہ کی حیات و خدمات پر بھی روشنی ڈالیں
جواب دیںحذف کریںجاوید اختر بھارتی