01
ابن صفی ریسرچ فاؤنڈیشن کی پیش کش
جاسوسی کہانی 1
ابن صفی کی د نیا
ابن شفیع
امیجری- Imegrey
دسمبر 1980 نئ دہلی کے انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر مشرق وسطی کا ایک نوجوان مسافر اترا- امیگریشن کی ساری کارروائیوں کے بعد و جونہی ایرپورٹ کی لابی میں آیا فائیو سٹار ہوٹلوں کے نمائندے اپنے پلے کارڈ لیے اس کے گرد منڈلانے لگے- نوجوان مسافر سب کو نظر انداز کرتا ہوا خارجی دروازے کی طرف بڑھا یہاں چند خوش لباس منچلے اس کے گرد اکٹھے ہو گئے اور دلی کی زبان میں رازدارانہ انداز میں بولے" ساب- جو منگتا وہ ملے گا? جی خوش ہوئے گا "- مسافر انھیں خشمگین نگاہوں سے گھورتا داخلی دروازے سے گزر گیا ایئرپورٹ کی حدود سے نکل کر مسافر ٹیکسی اسٹینڈ تک آیا- مسافر کے ہاتھ میں صرف ایک سفری بیگ تھا- وہ ایک ٹیکسی کی پچھلی نشست پر بیٹھ گیا ٹیکسی ڈرائیور نے مہذب انداز میں پوچھا-
" کہاں جائیے گا سر"
" مجھے کرنل فریدی کی کوٹھی تک پہنچا دو- " مسافر نے کہا-
" کون کرنل فریدی-? ڈرائیور نے حیرت سے پوچھا- اس کے لیے یہ نیا نام تھا -
" کرنل - اے - کے - فریدی " مسافر بولا " فرام کرائم برانچ "-
" سر - یہاں کوئی کرنل فریدی نہیں نہ کوئی کوٹھی " ڈرائیور نے " کہا آپ کو غلط ایڈریس بتایا گیا "-
" کیا یہ ہندوستان کا دارالحکومت نہیں ? " مسافر نے تعجب سے پوچھا -
" نہیں سر یہ راجدھانی دلی ہے-" آپ چاہیں تو میں آپ کو پولیس ہیڈ کوارٹر سی بی آئی آفس یا پھر آئے بی کے آفس پہنچا سکتا ہوں- ڈرائیور نے جواب دیا- وہ غور سے نوجوان مسافر کو دیکھ رہا تھا -
" کرنل فریدی ' کیپٹن حمید ' قاسم ' انسپکٹریس ریکھا ' انسپکٹرجگدیش ' اور ڈی آئی جی کرائم برانچ کی رہائش گاہ دارالحکومت میں ہیں تو ہے- میں نے ان سے ملاقات کے لیے اتنا طویل سفر کیا ہے " مسافر نے کہا یہ تمام نام میرے لیے اجنبی ہیں-" ٹیکسی ڈرائیور نے بیزاری سے کہا- " صاحب آپ نیند میں تو نہیں ہے? " مسافر جھنجلا کا ٹیکسی سے اتر گیا - اس سے پہلے کہ وہ آگے بڑھتا ہے کسی نے پشت سے اس کے کاندھوں پر ہاتھ رکھے- اس نے مڑ کر دیکھا- وہ ایک ادھیڑ عمر ٹیکسی ڈرائیور تھا- " شاید میں تمہیں تمہاری منزل تک پہنچا سکتا ہوں" مسافر ہم بخوشی اس کی ٹیکسی میں بیٹھ گیا- وہ کار کے عقبی آئینہے میں نوجوان مسافر کا جائزہ لے رہا تھا- " تو تمہیں کرنل فریدی سے ملنا ہے"-? ادھیڑ عمر ٹیکسی ڈرائیور نے ٹیکسی اسٹارٹ کرتے ہوئے پوچھا- " ہاں انکل- ﷲ آپ کا بھلا کرے کیا آپ کرنل فریدی کی کوٹھی تک پہنچا دیں گے"? مسافر نے بڑے اضطراب سے پوچھا " ہاں بیٹے- میں تمہیں ضرور لے جاؤں گا- راستہ طویل ہے- تم ایسا کرو ابن صفی کا کوئی ناول پڑھنا شروع کردو- ویسے تم مجھے ابن صفی کے فین لگتے ہو- کتنے ناول پڑے"? ڈرائیور نے مسکرا کر پوچھا-
" سارے ناول-" مسافر خوش ہو کر بولا-" خصوصا فریدی سیریز کے مجھے ہر ناول کا پلاٹ اور ایک ایک کردار یاد ہے بعض ناول تو حفظ ہو چکے ہیں"-
" تو مطالعہ شروع کرو- اس وقت تک پڑھتے رہو جب تک کرنل صاحب کی کوٹھی نہ آجائے-" ڈرائیور آئینے میں بغور مسافر کی باڈی لینگویج دیکھ رہا تھا- مسافر نے سفری بیگ سے" زمین کے بادل " نامی ناول نکالا اور کہا یہ میرا فیورٹ ناول ہے- اور مطالعے میں غرق ہو گیا- ٹیکسی فرائے بھرتی رہی- پھر اچانک بریک چرچرائے- مسافر ناول سے نظریں ہٹائیں تو دیکھا سامنے کرنل فریدی کی پرشکوہ کوٹھی کھڑی تھی- وہ ناول کو ہاتھ میں تھامے کار کا دروازہ کھول کر بے تاہانہ کوٹھی کی طرف دوڑا- " میں انتظار کروں گا " عقب سے ادھیڑ عمر ٹیکسی ڈرائیور کی آواز آئی- مسافر کو حیرت ہوئی کہ کوٹھی کا گیٹ کھلا ہوا ہے- کمپاؤنڈ بھی سنسان تھا- کمپاؤنڈ میں کتے بھی نہیں تھے کتوں کے دربے بھی خالی تھے- پارکنگ میں لینکن اور حمید کی موٹر سائیکل بھی موجود تھی- مسافر آگے بڑھا برآمدہ بھی سنسان تھا- کوٹھی کا صدر دروازہ بھی کھلا تھا- مسافر پر حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ رہے تھے- آخر ماجرا کیا ہے? مسافر راہ داری سے ہوتا ہوا کرنل فریدی کے کمرے تک جا پہنچا- کمرے کا دروازہ بھی کھلا ہوا تھا مگر خالی- واپس ہوا ڈرائنگ روم بھی خالی تھا- پھر وہ کیپٹن حمید کے کمرے تک گیا- اس کا دروازہ بھی کھلا ملا- مگر خالی- استعجاب کے سمندر میں گرفتار مسافر نے ساری کوٹھی کے چکر لگائے- لائبریری' میوزیم ' تجربہ گاہ ' جم ' سب ویران اور خالی- مسافر کو وحشت ہونے لگی' اسے غش آنے لگے- وہ گھبرا کر واپس ہوا- گیٹ پر ٹیکسی اب بھی کھڑی تھی- ڈرائیور اسے دیکھ کر معنی خیز انداز میں مسکرا رہا تھا- " ہو سکتا ہوں کوئی ایمرجنسی ہو-" مسافر بولا " آپ مجھے قاسم کی کوٹھی تک لے چلیں شاید کیپٹن حمید وہی ملیں"-
" تم بیٹھو اور ناول کھولو-" ٹیکسی ڈرائیور نے کہا- مسافر اسے خالی خالی نظروں سے دیکھتا ہوا ناول کھول کر بیٹھ گیا- قاسم کی کوٹھی بھی خالی تھی- نہ قاسم ' نہ سیٹھ عاصم ' " نہ چپاتی بیگم " سرونئس کارٹر بھی خا لی- مسافر کو چکر پر چکر آنے لگے- ایک آخری امید باقی تھی- ڈرائیور سے درخواست کی کہ کرائم برانچ کی آفس لے چلے- ڈرائیور اسے کرائم برانچ آفس لے گیا- کرائم برانچ کے سارے دفاتر انسانی وجود سے خالی تھے- فریدی کے میز پر فائلیں موجود تھی. ایسٹرے میں ادھ جلا سگار بھی دکھائی دیا مگر فریدی ندارد ' حمید کی میز پر فلمی میگزین ' پائپ اور تمباکو پاؤچ موجود مگر حمید کا پتا نہیں- انسپکٹریس ریکھا کی میز اور کرسی بھی موجود تھی اس کا سروس ریوالور بھی مگر ------ اف - وہاں ایک بھی تصویر اور پینٹنگ نہیں جس سے آنکھوں کی دیدکی تسکین ہوسکے- مسافر اس ناول کے کنارے سے اپنا سرکھجایا جو اس نے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا- حیرتوں کے سمندر میں میں غوطہ زن مسافر واپس ہوا اور تھکے تھکے انداز میں ٹیکسی میں بیٹھ گیا- " یہ سب کیا تھا انکل-? میرا سر پھٹا جا رہا ہے-" مسافر نے ٹیکسی ڈرائیور سے کہا-
" تم ناول بیگ میں رکھو میں بتاتا ہوں - ٹیکسی ڈرائیور نے تسلی آمیز لہجے میں کہا- جو کچھ بھی ہوا ناول کے توسط سے ہوا- ہم اس دوران ہم کہیں نہیں گئے۔ ٹیکسی میں ہی بیٹھے رہے- تم امیجری کا شکار ہوئے ہو- یہ تخیل کی آخری سرحد ہے- کبھی میں بھی ہیلوسنیشن) Hallucination) کا شکار رہ چکا ہوں- تم نے جو کچھ دیکھا وہ امیجینیشن کا کمال تھا اور اس کا گیٹ وے وہ ناول ہے جو تم ابھی پڑھ رہے تھے- ناول کے پہلے لفظ سے قاری ابن صفی کی دنیا میں داخل ہوجاتا ہے- بیٹے میں کوئی جاہل ٹیکسی ڈرائیور نہیں- نفسیات میں ایم اے ہوں- بے روزگاری نے اسٹیئرنگ وہیل ہاتھوں میں پکڑا دی- " انکل میں کسی کردار کو کیوں نہ دیکھ سکا "? مسافر نے ایسے اپنے سر کو پکڑا رہا تھا جیسےاس پر ہتھوڑے برس رہے ہوں ۔ کیوں کہ ان زندہ جاوید کرداروں کا خالق ابن صفی 26 جولائی 1980 کو میٹھی نیند سو گیا- ڈرائیور بولا اب یہ کردار اس وقت متحرک ہونگے جب ابن صفی جیسا کوئی ساحر اپنی قلم کی ساحری سے پھر ان کرداروں میں روح پھونکے- مسافر اسے خالی خالی نظروں سے دیکھتا رہ گیا -
جنوری 2021 دبئی کے ایک جزیرے کی کئی ایکڑر زمینوں پر " ابن صفی تھیم پارک " کا افتتاح شیخ صابر الصباح کے ہاتھوں ہوا- اردو کے جاسوسی ناول نگار" ابن صفی کی دنیا " دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے تیار تھی- کرنل فریدی ' کیپٹن حمید کی کوٹھی' کرائم رپورٹر انور کے اخبار" اسٹار" کی عمارت ' قاسم کی کوٹھی ' سر سلطان کا بنگلہ ' رحمان صاحب کی کوٹھی ' علی عمران کا فلیٹ ' سائیکو مینشن ' رانا پیلیس ' سوپر فیاض کی رہائش گاہ ایکسٹوئیم کا ہیڈ کوارٹر' شکرال کی وادی ' تاریخ وادی ' کراغال کی گھاٹیاں ' لڑکال جنگل' فریدی کی کیڈی لاک ' عمران کی ٹوسیٹر ' ہوٹل مے پول ،نیا گرہ ' آرلکچنو ' ٹپ ٹاپ نائٹ کلب - ٹونی کا سرکس وغیرہ کی نمائش اور سیر- آخری پارک میوزیم جہاں ' فریدی ' عمران ' حمید 'صفدر' جولیا ' ریکھا، قاسم، ' سنگ ہی ' جوزف میگونڈا ' سلیمان گل رخ وغیرہ کے اسٹیچو ایستادہ تھے - سیاحوں کے جم غفیر کا استقبال ایک ضعیف العمر شخص ویل چیئر پر بیٹھا کررہا تھا- اس کی آنکھوں میں آج بھی نوجوانوں والی چمک تھی جیسے اس نے اپنی جنّت پالی ہم یاد دلائے یہ وہی ٹین ایجر مسافر تھا جو کبھی دہلی شہر کرنل فریدی سے ملنے آیا تھ-





بہترین۔ بہت عمدہ۔ اب لوگ ابن صفی تھیم پارک نہ تلاش کرنے لگیں۔
جواب دیںحذف کریں